For more detail Please contact with us feel free.
ہندوؤں کی امداد سے دلت باہر
تاریخ کے بدترین سیلاب میں سب کچھ بہہ چکا ہے مگر مذہبی اور طبقاتی تفریق تاحال باقی ہے۔
لاڑکانہ کی ہندو پنچایت اور دھرم شالا کے چیرمین لیکھراج مل نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہندو برادری نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک ماہ قبل امدادی کام شروع کیا جب کشمور کندھ کوٹ کے کرم پور اور غوث پور شہر ڈوبے اور ہندؤں نے نقل مکانی کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ امدادی کام تاحال جاری ہے۔
لیکھراج کے مطابق دھرم شالا میں پانچ سو خاندان رہائش پذیر ہیں جن کے لیے روزانہ کھانے کا مینو تبدیل ہوتا ہے۔
لیکھراج کے مطابق سیلاب متاثرہ ہندؤں کے لیے چوبیس گھنٹے چائے اور بچوں کا دودھ دستیاب ہوتا ہے۔ دھرم شالا میں کم از کم ایک ہفتے کا راشن جمع کر کے رکھا جاتا ہے۔
ہندو دھرم شالا لاڑکانہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی کسی حکومتی ادارے یا غیر سرکاری تنظیم کے دروازے پر امداد کے لیے دستک نہیں دی ہے۔
امداد کے طریقہ کار کی تفصیل بتاتے ہوئے لیکھراج نے کہا ہے کہ کبھی کوئی دس دن کا دودھ دے جاتا ہے تو کوئی بیس بوری چاول یا پندرہ دن کا صابن دے جاتا ہے۔ ’وہ خود آگے بڑھتے ہیں ہم ان کے دروازے تک نہیں جاتے‘۔
اوڈ ، باگڑی اور دیگر نچلی سطح کی ہندو جاتیوں کا رہن سہن الگ طرح کا ہے اور وہ کاروباری یا متوسط طبقے کے ہندوؤں سے مل جل کر نہیں رہ سکتے۔
پروفیسر شام لعل کا کہنا ہے کہ ان کا مذہب تو اس تفریق کی اجازت نہیں دیتا مگر اوڈ ، باگڑی اور دیگر نچلی سطح کی ہندو جاتیوں کا رہن سہن الگ طرح کا ہے اور وہ کاروباری یا متوسط طبقے کے ہندوؤں سے مل جل کر نہیں رہ سکتے۔
شام لعل کےمطابق دلتوں کے برتن ،ان کے کپڑے اور سماجی رویہ بلکل ہی الگ ہے۔
ہندو پئنچات کے چیئرمین لیکھراج کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثر ہندو اپنے ساتھ نقدی اور کئی قیمتی اشیاء ساتھ لے کر آئے ہیں اور اوڈ یا باگڑی طبقوں کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
’اگر سیلاب سے متاثر کاروباری طبقے میں سے کسی کی چوری ہوگئی تو ہم کیا کریں گے‘۔
سیلاب سے متاثر درجنوں دلت خاندان لاڑکانہ بس سٹینڈ کے امدادی کیمپ میں رہائش پذیر ہیں۔
ہندو پنچایت کا کہنا ہے کہ وہ دلتوں کو دھرم شالا میں نہیں ٹھہرا سکتے مگر روزانہ ایک وقت کا کھانا انہیں کیمپ میں فراہم کیا جا رہا
No comments:
Post a Comment