Islamabad, Feb 10 (PTI) The minority Hindu community in Pakistan's Balochistan province has appealed to the government to curb rising cases of abduction and robbery being perpetrated against its members, who are also facing "social and religious discrimination". The deteriorating law and order situation had heightened the community's vulnerability, Quetta Hindu Panchayat leader Shyam Kumar told a news conference in Balochistan's capital city.
بلوچستان میں ہندو برادری نے کہا ہے کہ وہ مذہبی جنون اور انتہا پسندی کا شکار ہے اور آئے روز صوبے میں ہندوں کے اغوا برائے تاوان کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکومت نے انکے تحفط کے لیے ابھی تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔ تاہم حکومت کا کہناہے کہ اغوا ہونے والوں کو ایسے علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے جہاں پولیس کی رسائی نہیں ہے۔
منگل کوکوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس نے خطاب کرتے ہوئے ہندو پنچایت کوئٹہ کے سر براہ شیام کمار نے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگرعلاقوں میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی اغواء اور انکی دکانوں میں لوٹ مار کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہےان کے مطابق گذشتہ روز کوئٹہ کے سورج گنج بازار میں دن دھاڑے چار مسلح ڈاکو ؤں نے ایک ہندو تاجر کیلاش کمارکی دکان حملہ اور ان کے فائرنگ سے دکان کا ملازم امان اللہ مری ہلاک ہوگیا ہے جبکہ جنوری میں تین ہندو تاجر اغواء ہوۓ تھے جن میں سے دو واپس آچکے ہیں لیکن ایک ابھی تک اغواء کاروں کے چنگل میں ہے اس کے علاو ہ ایک ماہ میں صرف کوئٹہ کے اندر ہندوں کےچھ قدوکانوں کو لوٹا گیا ہےہندو برادری پاکستان میں تمم اکائیوں سے زیادہ پر امن پسند ہے اور اس ملک کو دھرتی ماں گردانتے ہوئے اس کے وفاداری کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے اور اپنے وطن کی اقتصادی اور سماجی ترقی میں اپنا کردار ادا کررہی ہے لیکن اس کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے سیاسی سماجی اور مذھبی طور پر ہندوں کے ساتھ غیر انسانی اور امتیازی سلو ک رکھا جا رہا ہے
ہندو برادری کے نمائندے نے کہا کہ بلوچستان میں ہندؤں کے اغواء اور دکانوں کے لوٹ مار کے واقعات ایک سوچھے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے جس پر قابو پانے میں حکومت او ر پولیس بر ی طرح ناکام ہوچکی ہیں۔
شیام کمار نے کہا کہ اگر حکومت نے ان واقعات کا نوٹس نہیں لیا تو وہ پھر پاکستان اور دنیا کے ہرفورم پراحتجاج کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
اس سلسلے میں جانسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان جاوید علی شاہ بخاری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے اغواء برائے تاوان کا سلسلہ روکنے کے لیے مختلف نقاط پر غور شروع کر رکھا ہے لیکن بدقسمتی سے اغواء برائے تاوان کے وارداتوں میں ملوث گروہ ان کو ایسے علاقوں میں لے جاتے ہیں جو پولیس کے دائرہ کار میں نہیں آتے ہیں لیکن اس کے باوجود پولیس اور دیگر ادارے صوبے کے مختلف علاقوں میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ انیس سو آٹھانوے کے مردم شماری کے مطابق بلوچستان کے دہی اور شہری علاقوں میں تقریباً ڈھیڑ لاکھ ہندو آباد ہیں اور گزشتہ دس سالوں کے دوران صوبے میں امن امان کی خراب صورحال کے باعث کئی ہندو تاجراغواء ہوئے ہیں۔ ہندو رہنماؤں کے مطابق اغوا ہونے والے تاجروں کی اکثریت تاوان کی ادائیگی کے نتیجے میں رہائی پا نے کے بعد ہندوستان اور دیگر ممالک کو ہجرت کرچکے ہیں۔
No comments:
Post a Comment