Source
BBC Urdu
| |
شادیوں کی رجسٹریشن نہ ہونے سے ہندوؤں کی مشکلات کا سامنا ہے |
پاکستان میں حیرت انگیز طور پر ہندوؤں کی شادی کی رجسٹریشن کا کوئی قانون نہیں ہے جس کی وجہ سے ہندو جوڑوں کو سرکاری دستاویزات کے حصول اور آزادانہ نقل و حرکت میں سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نچلی ذات کے ہندوؤں کی ایک تنظیم ہرے رام فاؤنڈیشین نے حال ہی میں حکومت پاکستان کو ایک ماڈل قانون کا ڈرافٹ بل پیش کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس سلسلے میں فوری قانون سازی کی جائے۔
ہرے رام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر رمیش جے پال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تنظیم نے قانون سازی کے لئے صدر، وزیر اعظم پاکستان اور متعلقہ وفاقی وزارتوں کو تحریری سفارشات ارسال کی تھیں اور اب انہوں نے حکومت کو ایک مجوزہ قانون کا ڈرافٹ بل بھی پیش کردیا ہے۔
’سفارشات پر ہمیں پہلا جواب وزارت انسانی حقوق کی طرف سے آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ یہ معاملہ وزارت اقلیتی امور کو بھیجا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں ہماری وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی سے ملاقات ہوئی ہے جس میں ہم نے انہیں ایک ڈرافٹ بل پیش کیا ہے اور انہوں نے یقین دلایا ہے کہ آئندہ سال کی پہلی سہ ماہی میں یہ قانون سازی ہوجائے گی۔‘
| یہ کیس سن 2000-2001 میں ہوا تھا اور گڈی مائی نامی اس خاتون نے یہ دعوی کیا تھا کہ پچھلے دو سالوں سے اسکے خاوند نے نہ میرا خرچہ دیا ہے اور نہ میرے بچوں کا خرچہ دیا ہے تو اسکا خاوند جب عدالت میں پیش ہوا تو وہ صاف مکر گیا کہ وہ اسکا شوہر ہے۔،،
|
رمیش جے پال نے بتایا کہ شادیوں کی رجسٹریشن کا قانون نہ ہونے سے نچلی ذات کے ہندوؤں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
’شادی رجسٹریشن کا قانون نہ ہونے کی وجہ سے ہندوؤں خاص کر پاکستانی دلتوں کو شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈومیسائل وغیرہ کے حصول اور ووٹ کے اندراج میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ سفر کے دوران ہندو جوڑوں کو پولیس تنگ کرتی ہے اور ان سے شادی کا ثبوت مانگتے ہیں جو غریب ہندوؤں کے پاس صرف اسی وجہ سے نہیں ہوتا کہ ان کی شادی رجسٹر نہیں ہوتی۔‘
انہوں نے بتایا کہ شیڈول کاسٹ ہندو جوڑے اگر شادی کے بعد سیروتفریح کے لئے کسی شہر جاتے ہیں تو انہیں ہوٹلوں میں کمرے نہیں مل پاتے کیونکہ ہوٹل مالکان شادی کا قانونی ثبوت طلب کرتے ہیں اور ان کے بقول اس وجہ سے انہیں ریلوے اسٹیشن پر یا دوسری کسی جگہ پر رہ کر رات بسر کرنا پڑتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق شادی کی رجسٹریشن نہ ہونے سے سب سے زیادہ متاثر ہندو خواتین اور بچے ہوتے ہیں۔
رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے وکیل عامر ندیم نے کچھ سال پہلے اپنے شہر کی عدالت میں ایک ایسی ہی ہندو عورت کا مقدمہ لڑا تھا جسے شادی رجسٹر نہ ہونے کی وجہ سے اپنا حق حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
’یہ کیس سن 2000-2001 میں ہوا تھا اور گڈی مائی نامی اس خاتون نے یہ دعوی کیا تھا کہ پچھلے دو سالوں سے اسکے خاوند نے نہ میرا خرچہ دیا ہے اور نہ میرے بچوں کا خرچہ دیا ہے تو اس کا خاوند جب عدالت میں پیش ہوا تو وہ صاف مکر گیا کہ وہ اس کا شوہر ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ وہ واقعاتی شہادتوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ مکرنے والا شخص ہی مدعیہ کا شوہر ہے اور مقدمے کا فیصلہ گڈی مائی کے حق میں ہوا تھا لیکن اس میں کہیں زیادہ محنت اور وقت صرف ہوا تھا۔
نادرا کی ایک پالیسی کے تحت ہندو جوڑا شناختی کارڈ کے حصول کے لئے شادی کی دستاویز نہ ہونے کی وجہ سے درخواست فارم اپنے علاقے کے یوسی ناظم سے اس بات کی تصدیق کراکے جمع کراسکتا ہے کہ وہ قانونی طور پر شادی شدہ جوڑا ہے لیکن عامر ندیم کے مطابق کئی یو سی ناظم اس بات کی ضمانت دینے سے صرف اس وجہ سے انکار کردیتے ہیں کہ نچلی ذات کے ہندو انتہائی غریب اور پسماندہ ہوتے ہیں۔
1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی ساڑھے چوبیس لاکھ ہے۔ نچلی ذات کے ہندوؤں کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا دعوی ہے کہ اس آبادی میں نوے فیصد سے بھی زیادہ شیڈول کاسٹ ہندو ہیں لیکن انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور کابیناؤں میں جائز نمائندگی نہیں دی جاتی اور ہندوؤں کے لئے مخصوص نشستوں اور کوٹے پر اعلی ذات کے ہندوؤں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
No comments:
Post a Comment